Pages

Sunday, 10 July 2016

Farhat Abbas Shah Book Teray Kuch Khawab

Teray Kuch Khawab

**********************


تیرے کچھ خواب جنازے ہیں مری آنکھوں میں

وہ جنازے جو کبھی گھر سے اٹھائے نہ گئے


فرحت عباس شاہ


**********************


ہوا کے ساتھ مجھے لے کے چل رہا ہے خدا

اڑا کے ساتھ مجھے لے کے چل رہا ہے خدا


کہیں بھی چھوڑا نہیں اس نے اتنی صدیوں سے

خدا کے ساتھ مجھے لے کے چل رہا ہے خدا


فرحت عباس شاہ


**********************


جلائی جب بھی کہیں پر ترے خیال کی لو

دمک اٹھی مرے چاروں طرف جمال کی لو


یہ ٹھیک ہے کہ مرے سب علوم ناقص ہیں

مگر میں کیوں نہ درخشاں رکھوں سوال کی لو


مجھے اسی سے میسر ہے روشنی ساری

میں کیسے بجھنے دوں دل میں ترے ملال کی لو


یہ رات میری سیہ بختیوں کی تاریکی

یہ چاندنی مرے چہرے کے زرد تھال کی لو


ہواؤں کی کوئی اوقات ہی نہیں فرحت

جلی ہوئی ہو فضا میں اگر کمال کی لو


فرحت عباس شاہ


**********************


ترا رنگ ہے مرے چارسو

ابھی جھنگ ہے مرے چار سو


مجھے لگ رہا ہے جہان میں

کوئی جنگ ہے مرے چار سو


کہیں بیٹھنے نہیں دے رہی

جو امنگ ہے مرے چار سو


تری بے وفائی کا دائرہ

بڑا تنگ ہے مرے چارسو


مجھے مار ڈالے گی خوف سے

جو سرنگ ہے مرے چار سو


فرحت عباس شاہ


**********************


باغ خاموش صبا آزردہ

کون اس جا سے گیا آزردہ


تم نہیں ہو تو بھری بستی میں

پھرتی رہتی ہے ہوا آزردہ


کون کہتا ہے کہ ہو جاتا ہے

دل کے ہونے سے خدا آزردہ


اے دل زار مسائل کیا ہیں

تم کو دیکھا ہے سدا آزردہ


میں نے پوچھا مری جاں کیسے ہو

اس نے ہولے سے کہا آزردہ


اپنی پہچان یہی ہے اب تو

سخت بے چین، خفا، آزردہ


فرحت عباس شاہ


**********************


غم کے بازار نہ جا

آنکھ کے پار نہ جا


لوٹنا مشکل ہے

اے دل زار نہ جا


جانے کب آن گرے

زیر دیوار نہ جا


شان سے جاؤ تو ہے

یوں سر دار نہ جا


آ ترا دکھ بانٹوں

شام بیمار نہ جا


کچھ نہ کچھ لڑ تو سہی

اس طرح ہار نہ جا


کچھ دلاسہ بھی تو دے

ہم کو یوں مار نہ جا


فرحت عباس شاہ


**********************


آپ جب آئے تو ہم بھول گئے

ذات کے سارے ہی غم بھول گئے


کس نے رکھا دل بے تاب پہ ہاتھ

درد اتنا تھا کہ ہم بھول گئے


ان میں سکت نہیں باقی یا پھر

آپ کے ہاتھ ستم بھول گئے


وہ مجھے یاد رکھیں گے کیسے

جو مری آنکھ کا نم بھول گئے


ہم تو انساں ہیں خطا کے پتلے

آپ کیوں اپنا کرم بھول گئے


فرحت عباس شاہ


**********************


اے حسنِ گم تمہیں دیکھے ہوئے زمانہ ہوا

کہاں ہو تم تمہیں دیکھے ہوئے زمانہ ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


جس طرح ساعتیں ہوں سال میں گم

راحتیں ہو گئیں ملال میں گم


ہم ترے ساتھ ساتھ تھے اور تو

ہو چکا تھا کسی خیال میں گم


کیسے پہنچیں تمہارے باطن تک

عمر بھر سے ہیں خدو خال میں گم


ہم بھی پھنس ہی گئے اگر تو کیا

اک زمانہ ہے اس کے جال میں گم


دوسرا کوئی کس طرح سنبھلے

حسن خود ہے ترے جمال میں گم


فرحت عباس شاہ


**********************


دنیا کے دستور مطابق کام ہوا

سورج ڈوبا اور میں رزقِ شام ہوا


جاگے، تڑپے، روئے، جھگڑے، شعر کہے

تیری خاطر دیکھو کتنا کام ہوا


عشق اور مشک چھپانے سے کب چھپتے ہیں

تیرا میرا قصہ کتناعام ہوا


ٹوٹے پھوٹے سپنے، آدھ ادھورے گیت

اپنا تو جو کچھ تھا تیرے نام ہوا


یہ سب سوچنا کتنا اچھا لگتا ہے

لوگ سمجھتے ہیں فرحت بدنام ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


سوچنے میں تو کوئی حرج نہیں

ڈھونڈنے میں تو کوئی حرج نہیں


چھوڑ جانا تو اب نہیں لیکن

روٹھنے میں تو کوئی حرج نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


یاد ہے ہم کہ ترے عشق کی من مانی میں

سر ہتھیلی پہ لیے پھرتے تھے نادانی میں


وہ تو پاؤں ہی لیے پھرتے ہیں ورنہ ہم کو

راستہ یاد نہیں رہتا پریشانی میں


اب کہیں چھاؤں نہیں ملتی کسی پیڑ تلے

اب کوئی عکس نظر آتا نہیں پانی میں


ہم اجڑ کے بھی ہیں آباد بہت یوں جاناں

اور کھل اٹھتی ہیں یادیں تری ویرانی میں


تم کھلے ماتھے ملو ہم سے تو دیکھو یہ بھی

کیسے مہتاب چمک اٹھتا ہے پیشانی میں


فرحت عباس شاہ


**********************


رتجگہ دیکھا، یا سکتہ یا کوئی خواب بتا

کس طرح رات بتائی دل بے تاب بتا


آنسوؤں سے تو خزاں اور بھی بڑھ جاتی ہے

کیسے کرتے ہیں بیابانی کو شاداب بتا


اے مری روح زمانے کو دکھا سب ناسور

اے مری عمر اسے عشق کے آداب بتا


یہ ستارے ہیں جو ہر روز چھلک پڑتے ہیں

ٹوٹ کر گرتا کہاں ہے کوئی مہتاب بتا


خامشی بوجھ بڑھاتی ہے بہت تیزی سے

کب تلک اس کو سنیں گے مرے اعصاب بتا


فرحت عباس شاہ


**********************


جاتے جاتے اس طرح سب کچھ سوالی کر گیا

روح کا کمرہ بھرا رہتا تھا خالی کر گیا


اب نہ کوئی راہ جچتی ہے نہ کوئی ہمسفر

ایک دو دن کے سفر کو یوں مثالی کر گیا


وقت بھی کیسی عجب شے ہے ہمارے سامنے

اک ذرا بیتا تو سب دنیا خیالی کر گیا


عشق اپنے ساتھ یہ کیسی نرالی کر گیا

چند لمحوں میں طبیعت لا ابالی کر گیا


ہجر کا اسپ پریشاں دل کی ہر اک آرزو

فصل لاوارث سمجھ کر پائمالی کر گیا


فرحت عباس شاہ


**********************


میری روح کی شریانوں میں جب تو پھیل گئی

آنکھ جھپکتے بستی بھر میں خوشبو پھیل گئی


فرحت عباس شاہ


**********************


حسن اور پیار کی برسات میں ہم

ڈوب جاتے ہیں تری ذات میں ہم


ڈھل گئی عمر ترے وعدے میں

ہو گئے بوڑھے بس اک رات میں ہم


اس سے پہلے کہ کوئی اور کہے

خود ہی رہ لیتے ہیں اوقات میں ہم


دیکھ ! ہیں کیسے نکھرتے آتے

ایک سے ایک ملاقات میں ہم


نیند کی آڑ میں خوابوں کے تلے

بیٹھ جاتے ہیں تری گھات میں ہم


ناگہاں عشق کے حالات میں ہم

سارا کچھ ہار گئے بات میں ہم


پست آتے تھے نظر ہفت افلاک

اتنے ارفع ہوئے درجات میں ہم


فرحت عباس شاہ


**********************


گرتا رہا ہوں وہ بھی سہارے کے ساتھ ساتھ

جی ڈوبتا رہا ہے کنارے کے ساتھ ساتھ


ہم بھی رہے ہیں کونسے سکھ میں ترے بغیر

جلتی رہی ہے آنکھ نظارے کے ساتھ ساتھ


روتے رہے ہیں عالم صبر و قرار میں

چلتے رہے ہیں وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ


اس رات جانے کیا تھا اچانک ہی چل پڑا

انگلی پکڑ کے دل بھی ستارے کے ساتھ ساتھ


اچھا تو یہ ہے ناں ہی سنو داستان غم

رونے لگو گے درد کے مارے کے ساتھ ساتھ


شب جاگتی رہی ہے ترے انتظار میں

دم ڈوبتا رہا ہے ستارے کے ساتھ ساتھ


فرحت عباس شاہ


**********************


درد دریا کی طرح جاری ہے

رات پتھر کی طرح بھاری ہے


آج اگر ہم ہیں مصیبت میں تو کیا

اپنی اپنی مری جاں باری ہے


سوگواری کی مرے چاروں طرف

کوئی بیمار فضا طاری ہے


دل لگی وہم کے سایوں کی طرح

جان لیوا کوئی بیماری ہے


ایک ہی چوٹ ہے کافی دل پر

ایک ہی زخم بہت کاری ہے


موت سے پیار بجا اہل نظر

زندگی موت سے بھی پیاری ہے


ایسا لگتا ہے کہ پہلے دن سے

آزمائش سی کوئی جاری ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


یار تو یار ہوا کرتے ہیں

آزمانے کی ضرورت کیا ہے


یہ بتا دل میں تمہارے آخر

میرے بارے میں کدورت کیا ہے


اس قدر خوف سے بچنے کے لیے

کوئی بتلائے کہ صورت کیا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


دیدہء نم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں

ہم ترے غم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں


شہر بھر سے ہیں مراسم اپنے

پھر بھی کم کم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں


ہم بہت ہیچ عزادار ترے

تیرے ماتم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں


لوگ گھبرائے ہوئے بارش کے

خشک موسم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں


آپ کے نام میں سکھ پاتے ہیں

آپ کے دم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں


تجھ سے ہم اس لیے ملتے ہیں بہت

ربطِ پیہم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


مستقل دل سے ہے ڈر وابستہ

جس گھڑی سے ہوا گھر وابستہ


ہم فقیروں کا حوالہ دکھ ہے

آپ کی ذات سے زر وابستہ


اس کی لہروں سے میری لہروں کا

جانے کیسا ہے اثر وابستہ


ٹیس سے ٹیس کا اک رابطہ ہے

زخم دل سے ہے جگر وابستہ


ہو گئے اس سے دل و جاں اپنے

جیسے دیوار سے در وابستہ


منزلیں اور کسی کی ہونگی

اس سے میرا ہے سفر وابستہ


زندگی یوں بھی جدا کرتی ہے

ہم ادھر ہیں وہ ادھر وابستہ


سامنے ہو یا نہ ہو رہتی ہے

اس کے چہرے سے نظر وابستہ


فرحت عباس شاہ


**********************


اگرچہ لاکھ جتن سے نکال لایا تھا

میں اپنا آپ تھکن سے نکال لایا تھا


اسے خبر تھی کہ کس طرح روح کھینچتے ہیں

وہ مجھ کو میرے بدن سے نکال لایا تھا


کسی کو تم بھی اٹھا لائے تھے ہواؤں سے

کسی کو میں بھی گھٹن سے نکال لایا تھا


وہ میرے دل میں پڑا ہے سفید کپڑوں میں

میں اس کا عکس کفن سے نکال لایا تھا


لہو لہو تھی مری کشت جاں میں جب اس کو

غموں کے رقص کہن سے نکال لایا تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


جن سے ہوتی ہے روح کو تکلیف

بے شمار اس طرح کی باتیں ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


گیت لکھے بھی تو ایسے کہ سنائے نہ گئے 

زخم لفظوں میں یوں اترے کہ دکھائے نہ گئے 


تیرے کچھ خواب جنازے ہیں میری آنکھوں میں 

وہ جنازے جو کبھی گھر سے اُٹھائے نہ گئے


ہم نے قسمیں بھی اٹھا دیکھیں مگر بھول گئے

ہم نے وعدے بھی کیے اور نبھائے نہ گئے


شہر میں فتح کی رونق تھی کسی دشمن پر

ہم سے لیکن در و دیوار سجائے نہ گئے


کیا بس اتنی ہی محبت تھی کہ بولے نہ چلے

کیا بس اتنا ہی تعلق تھا کہ آئے نہ گئے


فرحت عباس شاہ


**********************


میں اس کے ہر انجام ہر آغاز میں گم تھا

جس میں وہ عیاں تھا میں اسی راز میں گم تھا


اب بھٹکی ہوئی لے کی طرح کھٹکا ہوں سب سے

میں سہمے ہوئے سر کی طرح ساز میں گم تھا


لہجے کی روانی تھی کی دریا کی جوانی

ساحل بھی تری بات کے انداز میں گم تھا


میں نے تمہیں چاہا تو تھے مغرور بہت تم

تم نے مجھے ڈھونڈا تو میں اعزاز میں گم تھا


اک دنیا ترے حسن کے رنگوں میں تھی محصور

اک شہر سریلا تری آواز میں گم تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


کہاں چلے ہو آگے رستہ مشکل ہے

قدم قدم پر جنگل ہے اور دلدل ہے


ورنہ تو جیون بھی ساکت صامت ہے

غور کرو تو پتھر میں بھی ہلچل ہے


میرے اپنے روز و شب ہیں جیسے ہیں

میری اپنی بستی ہے اور جنگل ہے


خالی خولی باتیں کرتے رہتے ہو

اوپر سے دل پہلے ہی سے بوجھل ہے


تیرے اندر تُو تو خود بھی کم کم ہے

میرے اندر ایک زمانہ بے کل ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


جس طرح رین رہی

میں بھی بےچین رہی


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم ترے نام پر بلائے گئے

اور پھر دار پر چڑھائے گئے


زندگی موت ہے کچھ ایسے میں

ایک پل میں ہزار آئے گئے


نین بھی کیا غضب کے تھے معصوم 

جانتے بوجھتے رلائے گئے


جشن ہجراں تھا میرے کمرے میں

زخم دیوار پر سجائے گئے


باوفا تھے اسی لیے شاید

ہم کئی بار آزمائے گئے


فرحت عباس شاہ


**********************


صورت حال جاننے کے لئے

وقت کی چال جاننے کے لئے


ہم نے رکھا ہے درد کو عریاں

قلب پامال جاننے کے لئے


آنکھ اٹکی رہی ستاروں پر

رات کی فال جاننے کے لئے


آن پھنستے ہیں کتنے دیوانے

عشق کا حال جاننے کے لئے


ہم تری روح کے لیے آئے

تم خدوخال جاننے کے لئے


فرحت عباس شاہ


**********************


گرمی عشق بسر کیا کرتے

دھوپ اندر تھی شجر کیا کرتے


ان سے بڑھ کر تھا مسلط کوئی

غم مرے دل پہ اثر کیا کرتے


پاؤں ہی ساتھ نہیں تھے جن کے

وہ ترے ساتھ سفر کیا کرتے


کوئی آیا نہ گیا ہو جس جا

ایسی آبادی میں گھر کیا کرتے


وقت پنجرے کی طرح ہوتا ہے

میرے بازو مرے پر کیا کرتے


فرحت عباس شاہ


**********************


اے کم نظرو دامن صد چاک اڑاؤ

ہاتھ آ ہی گیا ہوں تو مری خاک اڑاؤ


کس بات کا رونا ہے اگر گھر نہیں ملتا

کس نے یہ کہا تھا خس و خاشاک اڑاؤ


فرحت عباس شاہ


**********************


یقیں حد سے زیادہ کر لیا ہے

بکھرنے کا ارادہ کر لیا ہے


کہیں گھبرا نہ جائیں راستے میں

ترے غم کا اعادہ کر لیا ہے


بلا سے ظرف جو پایا سو پایا

مگر آنگن کشادہ کر لیا ہے


یہی اک حل نظر آیا ہے تیرا

طبیعت ہی کو سادہ کر لیا ہے


کوئی تو خوف اندر ہے جو ایسے

لبادے پر لبادہ کر لیا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم جو کبھی کبھار اداس نکل پڑتے

گلی سے گلی کے بیچ ہزاروں تھل پڑتے


جانے کیسی گرمی اس کے حسن میں تھی

کتنے پتھر دل یکلخت پگھل پڑتے


اجڑے ہوئے گھروں کے دیپ تھے بجھے رہے

تیری آنکھوں میں ہوتے تو جل پڑتے


تیری یاد سمندر دل میں گرتے ہی

کتنے نہروں جیسے درد اچھل پڑتے


کہنے اور نہ کہنے میں سب بکھر گیا

تم کہتے تو ہم بھی شاید چل پڑتے


فرحت عباس شاہ


**********************


عین سر میں طبل دل کی تھاپ سی آتی رہی

دیر تک اسپ اجل کی ٹاپ سی آتی رہی


خوف ایسا تھا کہ لرزش بولتی تھی سانس میں

برف ایسی تھی لہو سے بھاپ سی آتی رہی


خواب میں پھولوں کا جنگل سا نظر آیا مگر

رات بھر خوشبو ہمیں کچھ آپ سی آتی رہی


تیرے آ جانے کے موسم نے ہمیں پاگل کیا

وہم یوں ٹھہرا کہ کوئی چاپ سی آتی رہی


بج رہا تھا جانے کس بچھڑے ہوئے پل کا سرور

عمر بھر کانوں میں کوئی تھاپ سی آتی رہی


فرحت عباس شاہ


**********************


دل بنجر ہی رہے گا ساون پاس آنے تک

جلے ہوئے میدانوں میں پھر گھاس آنے تک


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم اسے اضطراب میں کیا کیا

کہہ گئے ہیں جواب میں کیا کیا


دیکھنے والے اک ترے باعث

دیکھتے ہیں گلاب میں کیا کیا


اس لیے ہم نہیں کہ گنتے رہیں

خوبیاں ہیں جناب میں کیا کیا


آنکھ خود اپنے ہی فریب میں ہے

سوجھتا ہے سراب میں کیا کیا


اس کی تصویر بھی ہے سوچیں بھی

مل گیا ہے کتاب میں کیا کیا


فرحت عباس شاہ


**********************


نکل پڑے تھے کبھی ہم بھی حوصلہ کر کے

سفر تمام ہوا ہے خدا خدا کر کے


نصیب سوئے رہے لوگ باگ کھوئے رہے

فقیر لوٹ گیا شہر سے صدا کر کے


بھٹکتا دیکھ ہمیں آسمان ہے مسرور

زمین خوش ہے بہت راستے جدا کر کے


یہ کس طرح کی عقیدت ہے شہر والوں کی

مناتے پھرتے ہیں پہلے ہمیں خفا کر کے


سفر کی موت سے لگتا ہے ہو گئی ہے قبول

چلے تھے گھر سے کسی درد کی دعا کر کے


فرحت عباس شاہ


**********************


جب قیامت کی رات یاد آئے

آپ کی بات بات یاد آئے


ظرف کا تو یہی تقاضا ہے

جیت کے ساتھ مات یاد آئے


فرحت عباس شاہ


**********************


اپنی اپنی ہے نظر کی صورت

دھوپ اگ آئی شجر کی صورت


ساری بستی میں صدائیں دوں گا

جب بھی نکلی کوئی در کی صورت


راستہ ساتھ لیے پھرتا ہوں

اپنے اجڑے ہوئے گھر کی صورت


زندگی اس کے علاوہ کیا ہے

وقت کی رہ میں سفر کی صورت


یہ کوئی اور تو مخلوق نہیں

آگئی ہے جو بشر کی صورت


فرحت عباس شاہ


**********************


ہیں عناصر اصول کا باعث

جیسے ہم ہیں رسول کا باعث


چند باتوں نے حافظہ بخشا

چند یادیں ہیں بھول کا باعث


راستوں سے شکایتیں کیسی

خود مسافر ہیں دھول کا باعث


کس قدر ہو گا آپ خوشبودار

جو کوئی بھی ہے پھول کا باعث


ورنہ بے چینی ختم ہو جاتی

بد نصیبی ہے طول کا باعث


فرحت عباس شاہ


**********************


یہ کوئی بات نہیں زندگی سے ڈر جانا

یہ کوئی کام نہیں خامشی سے مر جانا


تو میرے ساتھ اگر اڑتے اڑتے تھک جائے

تو تھوڑی دیر کسی ابر پر ٹھہر جانا


تو ایک مرنی کل کا خیال ہے ساتھی!

یہ تیری شان نہیں دل میں لوٹ کر جانا


تُو چاندنی کا پرندہ ہے تو میں شاعر ہوں

عجیب ہے کہ نہ میں نے نہ تُو نے گھر جانا


یہ کب سے تُو نے پرستان خواب میں اے دل

بنا لیا ہے وطیرہ کہیں اتر جانا!


فرحت عباس شاہ


**********************


سارے اپنے لوگ ہی اپنی دھرتی ماں کو

آدھے نوچ رہے ہیں آدھے سوچ رہے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


کسی جنون کے حالات ہیں مرے اندر

کئی طرح کے خرابات ہیں مرے اندر


یہ پانی چھوڑ گئے کون دل کے پچھواڑے

یہ کون مائل برسات ہیں مرے اندر


نہ کوئی صبح نہ دوپہر ہے نہ شام کوئی

عجب تھکے ہوئے دن رات ہیں مرے اندر


تمہاری اور ہی وقعت ہے میرے دیوانے

تمہارے اور ہی درجات ہیں مرے اندر


ترے کلام کا پھیلاؤ ہے مرے ہر سو

تری کتاب کے صفحات ہیں مرے اندر


جگہ جگہ پہ کئی بستیاں ہیں اجڑی ہوئی

کئی زمانوں کے صدمات ہیں مرے اندر 


فرحت عباس شاہ


**********************


اک دل ہے کہ دیوانہ و غمناک بہت ہے

اور اس پہ زمانہ ہے کہ چالاک بہت ہے


اب جانے تجھے دیکھ کے پہچان بھی پائے

یہ آنکھ جو اک عمر سے نمناک بہت ہے


تجھ کو تری تکبیر کی آگاہی مبارک

مجھ کو مرے کم ہونے کا ادراک بہت ہے


لگتا ہے یہاں عمر سے رویا نہیں کوئی

اس شہر میں برسات ہے کم خاک بہت ہے


اب آہی گئے ہو تو سنبھل کے ذرا رہنا

اس شہر میں رسم خس و خاشاک بہت ہے


بس تھوڑا بھرم ہی تھا جو باقی نہیں فرحت

دامن ہی سلامت تھا جو اب چاک بہت ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


یک گو نہ طمانیت احساس کی خاطر

کیا کیا نہ کیا اس دل بن باس کی خاطر


کچھ ایسے بھی پھرتے ہیں یہاں گھات لگائے

جیسے کوئی خونخوار پھرے ماس کی خاطر


میں بادشہ درد غلامی میں تری ہوں

دل نام کے اس پگلے ترے داس کی خاطر


ننھے علی اصغرؑ تری قربانی پہ قرباں

خوں کیوں نہ بہا میرا تری پیاس کی خاطر


ہونٹوں کو ترے ترسے ہے رس میرے رسیلے

بے چین رہے گل بھی تری باس کی خاطر


فطرت کے بھی کچھ ایسے تقاضے ہیں مری جاں

تتلی نظر آئے نہ کبھی گھاس کی خاطر


فرحت عباس شاہ


**********************


رہ فقیری و غم اختیار کرتے ہوئے

گزر جا سارے زمانے سے پیار کرتے ہوئے


ہر ایک شئے کی کوئی انتہا بھی ہوتی ہے

میں تھک گیا ہوں ترا انتظار کرتے ہوئے


وہیں کہیں کوئی دریا تھا پیاس کا دریا

میں رک گیا تھا ترے دل کو پار کرتے ہوئے


گزر گیا یہ دلِ بے قرار جنگل سے

شجر شجر کو مرا رازدار کرتے ہوئے


ستارے ٹوٹ گرے بستیوں میں خاک اڑی

محبتوں کی مسافت شمار کرتے ہوئے


فرحت عباس شاہ


**********************


کیا عجب ہجر کی رت ہے ترے دیوانوں میں

جسم شہروں میں رہیں دل کہیں ویرانوں میں


فرحت عباس شاہ


**********************


آ آ کے ہوتے جاتے ہیں ارمان منسلک

اس عشق سے یہی تو ہے سامان منسلک


جیون کے ساتھ ساتھ اجل ہے لگی ہوئی

اک دل ہے اور اس سے بیابان منسلک


رستہ خود اپنے سامنے آتا ہے دوڑ کے

ہوتا ہے جب شکوک سے ایمان منسلک


سوچوں کے ساتھ جیسے تجسس جڑا ہوا

منظر کے ساتھ دیدہء حیران منسلک


کہتے ہو ساتھ یہ بھی کہ میں غیر تو نہیں

کرتے ہو ساتھ دھیمے سے احسان منسلک


رکھا نظر نے حسن کی بستی میں بس قدم

آنکھوں سے آ ہوئی شب ویران منسلک


فرحت عباس شاہ


**********************


سفر میں شب بھی آنی ہے ستارہ بھی نہیں رہنا

سمندر میں پرندوں کا اشارہ بھی نہیں رہنا


محبت میں دلوں کا کھیل ایسے ہی تو ہوتا ہے

ہمارا بھی نہیں رہنا تمہارا بھی نہیں رہنا


عجب بے مائیگی ہے زندگی کی بے ثباتی کی

کنارے پر کھڑے ہیں اور کنارہ بھی نہیں رہنا


جدائی پل میں لے آئے گی اک سیلاب آنکھوں میں

نگاہیں ڈوب جائیں گی نظارہ بھی نہیں رہنا


کسی دن چھین لے جائے گا کوئی خواب بھی مجھ کو

مری تنہائی کا واحد سہارا بھی نہیں رہنا


فرحت عباس شاہ


**********************


راکھ کی دھول میں اٹھے ہوئے سایوں پہ نہ جا

اگلی آبادی تلک ہنستے رہیں گے دل پر


فرحت عباس شاہ


**********************


گرچہ سارا جیون ہم نے غم لکھا

ہم کو یہ معلوم ہے کتنا کم لکھا


ہم نے اپنے دل کو بھی لکھا خوش خوش

ہم نے تیری آنکھوں کو بھی نم لکھا


دیکھو ہم نے کیسے ان کو ہمت دی

تھکے ہوئے لوگوں کو تازہ دم لکھا


جانے اس میں حکمت کیا تھی ہم دونوں

الگ الگ تھے لوگوں نے باہم لکھا


تیرے بعد تو روز بہت تفصیل کے ساتھ

ہم نے دل کا اک اک زیرو بم لکھا


فرحت عباس شاہ


**********************


لگتا ہے کہ صدیوں سے خدا سوچ میں گم ہے

اور سارے زمانے سے جدا سوچ میں گم ہے


کشتی میں بہت چپ ہے کوئی دیر سے بیٹھا

دریا کے کنارے پہ ہوا سوچ میں گم ہے


ہر موسم گل ہوتا ہے اتنا ہی تو ویراں

کیا جانئے کیوں باد صبا سوچ میں گم ہے


کس عرش تلک جانا پڑے درد کے مارے

اٹھے ہوئے ہاتھوں پہ دعا سوچ میں گم ہے


کیا کوئی پریشانی نئی ٹوٹ پڑی ہے

اس کو ذرا دیکھو تو یہ کیا سوچ میں گم ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


رات، سمندر، ہجر، ستارے آپس میں

کرتے ہیں کچھ خاص اشارے آپس میں


ایسے میں پھر دریاؤں کا کیا ہو گا

مل جائیں گے اگر کنارے آپس میں


جتنے تم مجبور ہو اتنے ہم بھی ہیں

یکساں ہیں احساس کے مارے آپس میں


دل اور آنکھوں کی آپس میں بنتی ہے

دے لیں گے کچھ دیر سہارے آپس میں


ایک ذرا آنکھیں بھر آئیں اشکوں سے

گڈ مڈ ہونے لگے نظارے آپس میں


فرحت عباس شاہ


**********************


آتے جاتے ہوئے پڑتا رہے نقش کف پا

دل مرا شہر محمدؐ کی زمیں لگتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


بے یقینی سا یقیں ہوں میں بھی

جس جگہ سب ہیں وہیں ہوں میں بھی


لوگ دم سادھ کے سب پھرتے ہیں

دم بخود ہوں کہ یہیں ہوں میں بھی


مجھ کو آ جائے یقیں ہونے کا

اتنا کہہ دے کہ کہیں ہوں میں بھی


سب مرے گرد ہیں منفی کے نشاں

سارے کہتے ہیں نہیں ہوں میں بھی


میں بھی گھبرایا ہوا پھرتا ہوں

تیری وحشت کے قریں ہوں میں بھی


اس نے اپنے سا بنایا ہے تو پھر

اس کا مطلب ہے حسیں ہوں میں بھی


فرحت عباس شاہ


**********************


کب میرا مقسوم ہوا

بدلے گی محکوم ہوا


شہروں میں آ قید ہوئی

جنگل کی معصوم ہوا


گھر کے کھلے دریچوں سے

آتی ہے موہوم ہوا


کبھی کبھی مجھ زنداں میں

ہو جائے معدوم ہوا


اس کی زلفیں لہرائیں

جھوم خوشی سے جھوم ہوا


اُس کی کوملتا کو چھو

اس کی آنکھیں چوم ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


کاٹی وہ جو ہجراں میں ریاضت نہیں جاتی

بے چین لب و لہجے کی عادت نہیں جاتی


رستوں سے تو میں خود کو چھڑا لایا ہوں لیکن

پیروں سے جو لپٹی ہے مسافت نہیں جاتی


خوشیوں کا سمندر بھی میسر ہو تو پھر بھی

افسردہ خیالات کی خصلت نہیں جاتی


خود سوزی کی کوشش سے یہ معلوم ہوا ہے

یہ سانس تو جاتی ہے محبت نہیں جاتی


کھل کر نہ برستا ہے نہ چھٹتا ہے یہ بادل

آنکھوں کی ترے غم سے شکایت نہیں جاتی


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم سے منزل درد کی کوئی بھی انجانی نہیں

آپ نے شاید ہماری خاک پہچانی نہیں


اے دل خود سر محبت کے مسائل میں بتا

کوئی ایسی بات جو ہم نے تری مانی نہیں


ٹھیک ہے، یہ شہر کچھ چپ چاپ ہے پھر بھی یہاں

جو ہمارے دل میں ہے ایسی تو ویرانی نہیں


ہم بھلے سر مارتے جائیں در و دیوار پر

رات کیوں ایسا کرے گی رات دیوانی نہیں


مجھ کو کیا معلوم تھا سپنے بھی قیدی ہیں مرے

مجھ سمجھ بیٹھا تھا میں ایسا بھی زندانی نہیں


شب جلے یا دن کسی پتھر میں ڈھل جائے مگر

شہر کو تو اب کسی منظر پہ حیرانی نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


یوں اچانک تمہارا مل جانا

میری خواہش تھی حادثہ کب تھا


ہم جسے ڈھونڈ لائے دل میں سے

وہ کوئی اور تھا خدا کب تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


وہ کچھ اس طرح بھی تقدیر بنا دیتا ہے

درد کی روح کو جاگیر بنا دیتا ہے


اک مسیحائی اتر آتی ہے شعروں میں مرے

کوئی الفاظ کو تاثیر بنا دیتا ہے


نقش کرتا ہے اجاگر مری آوازوں کے

بات کرتا ہوں تو تصویر بنا دیتا ہے


آنکھ معصوم ہے لیکن کوئی کرنی والا

ہدف دل کے لیے تیر بنا دیتا ہے


گھیر لیتا ہے نشانات قدم بھی فرحت

عشق کو حلقہ زنجیر بنا دیتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ایک میزان کائنات میں ہے

بات کوئی تو اس کی بات میں ہے


سلسلہ وار وار کرتا ہے

ہجر مصروف واردات میں ہے


روز روشن کو ڈھونڈنے والو

آ کے دیکھو ہماری رات میں ہے


بات تادیر چل نہیں سکتی

بدگمانی معاہدات میں ہے


کھینچتا ہے کئی بہانوں سے

ایک جادو جو تیری ذات میں ہے


موت کی خیر ہے مگر فرحت

زندگانی ہماری گھات میں ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


پتھر کو سر سے کوئی سرو کار ہی نہیں

ہم جس سے سر کو پھوڑیں وہ دیوار ہی نہیں


اس شہر میں جو درد کو بیچوں تو کس کے ہاتھ

اس شہر میں تو کوئی خریدار ہی نہیں


اک مجھ سوا زمانے میں یہ بدنگاہ لوگ

اُس اُس کو پوچھتے ہیں جو بیمار ہی نہیں


کچھ روح کا کروں کہ محبت کا کچھ کروں

دل کا کروں جو مائل آزار ہی نہیں


دل ہیں کہ مڑ کے دیکھے بنا سنگ ہو گئے

اور وہ پلٹ کے کہتے ہیں ایثار ہی نہیں


حد خیال تک نہیں کوئی تری خبر

حد نگاہ تک کوئی آثار ہی نہیں


لکھتے ہیں شعر درد کے آثار ہی نہیں

بازار ہے پہ گرمی بازار ہی نہیں


کیا معتبر گواہ قبیلے سے لے کے آؤں

دیوانہ کوئی صاحب دستار ہی نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


یہ جو تر وصال میں آنسو نکل پڑے

ڈرتا ہوں جانے ہجر میں کیا رسم چل پڑے


دیکھا تو ایک رات سے نکلی ہزار رات

سوچا تو قمقموں کی جگہ درد جل پڑے


فرحت عباس شاہ


**********************


آدھے غم


میں نے سوچا تھا

تم چلے جاؤ گے

سارے کے سارے چلے جاؤ گے

تم مجھے دھوکہ دو گے

میں نے سمجھا تھا

تم بھول جاؤ گے

سب کچھ بھول جاؤ گے

اور تمام کی تمام باتیں

ادھر سے ادھر اور دائیں سے بائیں

ہر جگہ سے کھرچ ڈالو گے

میں نے چاہا تھا

تم میرے ہو جاؤ

میرے اپنے

سارے اور مکمل

لیکن تم نے مجھے ہمیشہ آدھے غم دیے ہیں

آدھے اور ادھورے غم

اور کوئی کیا جانے

آدھے غم مکمل غموں سے کہیں زیادہ غمزدہ کر دینے والے ہوتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


آدھی خوشیاں


تم نے مجھے کہا تھا

تم میرے دوست ہو

پکے اور مخلص دوست

لیکن تم اور بھی بہت سارے لوگوں کے دوست تھے

پکے اور مخلص دوست

تم نے مجھے کہا تھا

تم مجھ سے محبت کرتے ہو

سچی اور گہری محبت

لیکن تم بہت سے دوسرے لوگوں سے بھی محبت کرتے تھے

سچی اور گہری محبت

تم نے مجھے کہا تھا

تم مجھ سے وفا کرو گے

ہمیشہ اور مرتے دم تک

اور تم نے یہ بات باقی سب لوگوں سے بھی کہی تھی

تم نے مجھے ہمیشہ آدھی خوشی دی

اور کوئی کیا جانے

آدھی خوشی ایک مکمل خلا سے

زیادہ خالی اور کھوکھلی ہوتی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


آدھے غم اور آدھی خوشیاں


آدھے غم اور آدھی خوشیاں

آدھے غم اور آدھی غم سے باہر آجانے کی سوچیں

اک وقفہ

اک رفتہ رفتہ خوگر ہونا

دھوپ اور دھوپ کا کھیل

اور آنکھوں میں دور دور تک دھوکہ کھٹکے چھاؤں کا

چاہے بادل سورج کے نیچے آجائے

یا سورج بادل کے نیچے

کچا موسم کچا موسم ہوتا ہے

چاہے آم کے پیڑ پہ اترے

چاہے سڑکوں پر

لال رنگ کی ساری چیزیں

شادی والی گڑیاؤں کے

لہنگے اور سہیلی جیسی کب ہوتی ہیں

ہنسنے کھیلنے والی چیزیں

ہنسنے کھیلنے والی بھی کیا ہوتی ہیں

آدھے غم اور آدھی خوشیاں

بلکہ غم ہی غم اور باقی آدھا جھوٹ


فرحت عباس شاہ


**********************

اختتام

**********************

تیرے کچھ خواب

**********************

فرحت عباس شاہ

**********************


Farhat Abbas Shah Book Tajdar E Haram

























Tajdar E Haram


**********************


اے رسولِ خدا مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ

رحمت کبریا مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ


دل ہے بیمار اور روح بے چین ہے

اے شفاء در شفاء مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ


اس نے پوچھا کہ دنیا میں ارفع ہے کون

اور میں نے کہا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


میری بخشش کا سامان کر دیجئیے

اے خدا کی رضا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


تیرگی سہم کر چُپ ہوئی چُپ ہوئی

چاند نے کہہ دیا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


یہ جو آسان ہے راستہ، آپؐ کے

ہے کرم سے ہوا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


تو سراپا کرم رحمت دوجہاں

میں خطا در خطا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


اے مرے بے سہاروں کے وارث خدا

دے مجھے آسرا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


آپ بنؐ کون ہے مجھ گنہ گار کا

ہو عنایت ذرا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


کہہ رہے ہیں فلک، کہکشاں، بحر و بر

کہہ رہی ہے ہوا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


آپ آئے تو دنیا میں رونق ہوئی

ورنہ تھا اور کیا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


بس یہی درد ہے اب مرا رات دن

اب یہی ہے دعا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


ہیں یہ ردِ بلا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ

یہ حروفِ دعا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ


فرحت عباس شاہ


**********************


زمانوں پہ غالب اثر آپؐ جیسا

نہ تھا اور نہ ہو گا بشر آپؐ جیسا


فرحت عباس شاہ


**********************


چلی آتی ہیں طیبہ سے ہوائیں یا رسول اللہ

ہوئیں مقبول میری بھی دعائیں یارسول اللہ


خبر ہوگی کہ ہم بے چین کتنے ہیں زیارت کو

سنی ہوں گی غلاموں کی صدائیں یارسول اللہ


میں بھٹکا ہوں مجھے رستہ دکھائیں یارسول اللہ

دیا کوئی مرے من میں جلائیں یارسول اللہ


مرا دل اب کہیں لگتا نہیں اس پوری دنیا میں

مجھے بس اپنے روضے پر بلائیں یارسول اللہ


مری اک عرض ہے روز قیامت حاضری جب ہو

مجھے اپنے غلاموں میں اٹھائیں یا رسول اللہ


فرحت عباس شاہ


**********************


در بند کیے، چپکے سے زنجیر لگائی

پھر خوابوں کے اندر تریؐ تصویر لگائی


پہلے تو دعا مانگی تریؐ نعت کی میں نے

پھر صفحہ احساس پہ تحریر لگائی


جانے ہی نہیں دیتی مجھے طیبہ کی جانب

کس کام پہ مولا مری تقدیر لگائی


اسؐ نے مرے ادراک کو بخشے پر و پرواز

اُسؐ نے مرے اشعار میں تاثیر لگائی


کچھ اس طرح چمکایا مجھے آقاؐ نے فرحت

جیسے مری پیشانی پہ تنویر لگائی


فرحت عباس شاہ


**********************


اک شہر تھا اور شہر بھی اُجڑا کیا آباد

اے والی یثرب تو نے تنہا کیا آباد


اب جس کے جو لکھا ہے نصیبوں میں وہ پائے

آقا نے مرے سارا زمانہ کیا آباد


صحرائی زمینوں پہ اُگا سبزہء احساس

اک لمبی بیابانی کو ایسا کیا آباد


یہ تیری ریاضت تھی کہ جاہل ہوئے ہم لوگ

یہ معجزہ تیرا تھا کہ صحرا کیا آباد


اے خاک مدینہ تری تاثیر کے صدقے

مجھ وحشت و ویرانی کا مارا کیا آباد


فرحت عباس شاہ


**********************


بخش دے مجھ کو اے غفور و رحیم

اپنے پیارےؐ کی آل کے صدقے


فرحت عباس شاہ


**********************


ضمیرِ خلق کو جب نور سے جگایا گیا

مرا گلہ ہے مجھے کیوں نہیں بلایا گیا


میں ہوتا آپؐ کے نعلین جھاڑنے والا

یہ رتبہ میرے لیے کیوں نہیں بنایا گیا


مرے حضورؐ کو جب عرش پر بلایا گیا

تو آسمانوں کو انوار سے سجایا گیا


لگائی جاتی رہیں جب ڈیوٹیاں سب کی

تو خاص طور پہ جبریل کو لگایا گیا


مرا غلاموں کی فہرست میں جو نام ہوا

میں ایک شان سے لوگوں میں آیا جایا گیا


فرحت عباس شاہ


**********************


ہے عالمِ کُل، لوح و قلم نامِ محمدؐ

اللہ کی ہے نظر کرم نام محمدؐ


مجھ کو مرے مولا، یہی سامان بہت ہے

اک نرمیء دل، دیدہء نم، نام محمدؐ


دنیا نے یہی دیکھا کہ اس ظلمتِ شب میں

ہے حق و صداقت کا علم نام محمدؐ


ہر عارضہ و دکھ کی دوا پاس ہے میرے

بس پھونک دیا کرتا ہوں دم نام محمدؐ


اک اسم سے میں گویا تونگر کی طرح ہوں

تا مرگ بھی ہوتا نہیں کم نام محمدؐ


فرحت عباس شاہ


**********************


میں اعلیٰ سے اعلیٰ مری تقدیر بناؤں 

جب شعروں سے اپنے ترے تصویر بناؤں


میں رنگ چنوں سبز تو ہو جاؤں اُجاگر

میں لفظ لکھوں ’’  مؐ  ‘‘  تو تاثیر بناؤں


جو تیریؐ محبت میں جکڑ لے مرا لُوں لُوں

میں تیریؐ غلامی کی وہ زنجیر بناؤں


آجاؤں ترےؐ پاؤں کے تلوے کے تلے میں

اور خود کو میں اس طرح جہانگیر بناؤں


اک قبر کی جاء لے لوں تری بستی میں فرحت

اور دونوں جہانوں میں یہ جاگیر بناؤں


فرحت عباس شاہ


**********************


بنا رسولؐ تو کوئی بھی بات کچھ بھی نہیں

مری نظر میں یہ سب کائنات کچھ بھی نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


اے شاہ زمن عظمتِ لولاک کے مولا

مجھ جیسے ہزاروں خس و خاشاک کے مولا


مجھے اپنی ثناء خوانی کا اعزاز عطا کر

اے میری فراست مرے ادراک کے مولا


اے نانا حسینؑ ابن علیؑ جیسے حسیں کا

عباسؑ علمدار سے بیباک کے مولا


اشکوں کے علاوہ تجھے کر سکتا ہوں کیا پیش

اے وارثِ غم درد کی املاک کے مولا


مجھ آنسوئے بے داد پہ بھی نظر کرم ہو

اے گریہء صبح، غازہء نمناک کے مولا


فرحت عباس شاہ


**********************


شاعر ہوں مجھے اتنی پزیرائی بہت ہے

مولا تری مٹی سے شناسائی بہت ہے


آتا ہوں مصلّے پہ تو رکتے نہیں آنسو

اور منہ سے یہ کہتا ہوں شکیبائی بہت ہے


کہنے کو تو ہوں بیچ مسلمانوں کے فرحت

لیکن مرے مولا یہاں تنہائی بہت ہے


دنیا کی شفاء ہاتھ میں میرے ہے کہ مجھ کو

اک نام محمدؐ کی مسیحائی بہت ہے


اس رات ترے خواب کی اک آس بندھی تھی

اس رات مجھے نیند بھی کچھ آئی بہت ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ہیں سرِ صحرا ستارہ آپؐ ہیں

بے سہاروں کا سہارا آپؐ ہیں


میں تو دریاؤں میں بھی ہوں مطمئن

میرا ایماں ہے کنارہ آپؐ ہیں


آج تک بیچارگی دیکھی نہیں

جانتا جو ہوں کہ چارہ آپؐ ہیں


عقل گھبرائی مصیبت دیکھ کر

دل کہ فوراً ہی پکارا آپؐ ہیں


گمرہی ممکن نہیں اہل نظر

رات اور دن کا نِتارا آپؐ ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


اُس کے بدن میں نور تھا کتنا عجب ہوا

ایسا بھلا کہاں کوئی عالی نسب ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


دیکھی ہے عجب صورتِ حالات نرالی

صحرا میں ہوئی نور کی برسات نرالی


دشمن کو دعاؤں کا دیا تحفہء انمول

اے رحمت کُل تیری ہر اک بات نرالی


یہ تیرا کرم ہے کہ تو کر دیتا ہے آقاؐ

مجھ جیسے غلاموں کی بھی اوقات نرالی


تھی اتنی انوکھی شب معراج کہ یارو

ایسی کبھی دیکھی ہی نہیں رات نرالی


آپؐ آئے تو مٹی کی بھی رنگت نکھر آئی

تھی چاند ستاروں کی بھی بارات نرالی


فرحت عباس شاہ


**********************


ابروئے صبح کا اشارہ چاہئیے

میں مسافر ہوں ستارہ چاہئیے


یا محمدؐ اب تو لاٹھی بھی نہیں

یا محمدؐ اب سہارا چاہئیے


کاش وہ میرے لیے یہ حکم دیں

’’ مجھ کو وہ اک غم کا مارا چاہئیے‘‘


آنکھ میں بڑھنے لگیں پیلاہٹیں

سبز گنبد کا نظارہ چاہئیے


میں سمندر سے بہت گہرا گیا

اب مرے مولا کنارا چاہئیے


فرحت عباس شاہ


**********************


یا نبیؐ آپ کے سوا مانگیں

کون ہے جس سے بارہا مانگیں


آپ کے اختیار کے صدقے

اپنی حاجات سے سوا مانگیں


مانگنا بھی بہت ضروری ہے

خود خدا نے بھی ہے کہا مانگیں


پہنچ جاتی ہے عرش پر سیدھی

تیرے در پر اگر دعا مانگیں


میرے آقا ہیں بانٹنے والے

جتنے بیمار ہیں شفا مانگیں


فرحت عباس شاہ


**********************


مرے رسولؐ کا دنیا میں جب ظہور ہوا

خدا کو اپنی ہی تخلیق پر غرور ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


نہیں ہے تاب نظر شاہ بے مثال کے بعد

کہاں جمال ٹھہرتا ہے اس جمال کے بعد


اسی لیے تو ہے اکمل کہا گیا تجھ کو

ہر اک کمال ہے آتا ترے کمال کے بعد


بدل گئی شب معراج کائنات کے رنگ

خدا بھی اور نظر آیا ہے وصال کے بعد


بس ایک آپ ہیں اور زندگی ہے نور بھری

کہیں بھی، کچھ بھی نہیں آپ کے خیال کے بعد


کہیں رہائی نہیں ملتی آپ سے ہٹ کر

پرندہ جائے کہاں رحمتوں کے جال کے بعد


فرحت عباس شاہ


**********************


ذات عالی صفات کے صدقے

آپؐ کی بات بات کے صدقے


روشنی دے گئی شب معراج

دن ملا ہم کو رات کے صدقے


اللہ اللہ مقام کیسا ہے

کائناتیں ہیں ذات کے صدقے


جس میں میرے حضورؐ بستے ہیں

دل کی اس کائنات کے صدقے


نطق میرا ہو نطق پر قرباں 

ہاتھ ہوں تیرے ہاتھ کے صدقے


ہے ازل اور ابد کی جو بنیاد

اس جہانِ حیات کے صدقے


فرحت عباس شاہ


**********************


مصطفیٰؐ جانے یا خدا جانے

کوئی غم ہو مری بلا جانے


ہوں نبیؐ کا غلام دل والو

میرے بارے میں کوئی کیا جانے


کتنا اتراتا پھر رہا ہوں میں

کیا بنے گا مرا خدا جانے


ڈوبتا جا رہا ہے سینے میں

میرے اس دل کو کیا ہوا جانے


آپؐ بن ہوں میں کس قدر تاریک

آپؐ کے نام کا دِیا جانے


عشق کے مرحلے کہاں تک ہیں

مصطفیٰؐ جانے مصطفیٰؐ جانے


فرحت عباس شاہ


**********************


مرا یقین ہے اس پر کوئی خیال نہیں

کسی جہاں میں کہیں آپ کی مثال نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


یوں عقیدت کے قرینے آگئے

بند کی آنکھیں مدینے آگئے


یوں لگا پا کر مجھے خاکِ نبیؐ

ہاتھ میں جیسے نگینے آگئے


ڈوبتے لمحے پکارا آپؐ کو

آسمانوں سے سفینے آگئے


بھر دیا ہے دل درودِ پاک نے

کیا خزینے ہی خزینے آ گئے


اک ذرا دیکھا تھا طیبہ کی طرف

اور مصائب کو پسینے آگئے


فرحت عباس شاہ


**********************


آپؐ کی ذات باصفا کے بغیر

پھر رہے تھے سبھی خدا کے بغیر


دین ہو، دل ہو، دنیا داری ہو

کام چلتا نہیں دعا کے بغیر


کیسے ممکن ہے کامیاب رہوں

میں تریؐ نظرِ اعتناء کے بغیر


دل دھڑکتا ہے نام سے تیرے

سانس لیتا ہوں میں ہوا کے بغیر


آپؐ نے دل کا حال جان لیا

آپؐ نے سن لیا صدا کے بغیر


شہر میں مارا مارا پھرتا تھا

عشقِ مولائے مصطفیٰؐ کے بغیر


مجھ پہ ہیں مہرباں مرے آقا

شہر سُونا ہے مجھ گدا کے بغیر


فرحت عباس شاہ


**********************


حوصلہ بار بار ہار کے ہم

رو پڑے آپؐ کو پکار کے ہم


عشق نے کر دیا ہے اہل خزاں

کتنے شوقین تھے بہار کے ہم


آپؐ کی خاک پا سے بھی مولا

خوش ہوئے اپنی جان وار کے ہم


اے شہنشاہو آج تک وارث

محل کے تم رہے مزار کے ہم


دنیاداری سے کھینچ ہی لائے

اپنے اس دل کو مار مار کے ہم


اب بلا لو کہیں قریب ہمیں

تھک چکے زندگی گزار کے ہم


فرحت عباس شاہ


**********************


سامنے جسؐ کے چاند ماند پڑے

اس قدر کون خوبصورت ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


میں نے مشکل میں جب بھی نامؐ لیا

آپؐ نے بڑھ کے مجھ کو تھام لیا


کس قدر شُبھ گھڑی تھی جب اُسؐ نے

اپنے ہاتھوں میں انتظام لیا


مجھ کو اپنا بنا کے دیوانہ

تو نے مجھ سے یہ کیسا کام لیا


مجھ کو بھٹکا دیا نہ جانے کہاں

عشق نے مجھ سے انتقام لیا


آنکھوں آنکھوں تریؐ زیارت کی

ہاتھوں ہاتھوں تراؐ کلام لیا


لوگ تو صبحیں لے گئے تمؐ سے

اور اک ہم کہ وقتِ شام لیا


تیرےؐ اتنے بڑے خزانے سے

ہم نے دل وہ بھی اتنا خام لیا


آپؐ ہی کے لیے ترستے رہے

آپ کا نام ہی مُدام لیا


آپؐ گزرے جو آسمانوں سے

جھک کے تاروں نے بھی سلام لیا


فرحت عباس شاہ


**********************


آنکھیں ہیں تہی روح ہے پیاسی مرے آقاؐ

جاتی ہیں نہیں دل سے اُداسی مرے آقاؐ


فرحت عباس شاہ


**********************


مرے نبیؐ مرے آقا تجھے سلام سلام

دل و نظر کے مسیحاؐ تجھے سلام سلام


تمہارے ؐ در پہ کھڑی کائنات کہتی ہے

ہر ایک بات میں اعلیٰ تجھے سلام سلام


اے بی بی فاطمہ زہراؑ کے والدِ ماجدؐ

حسنؑ حُسینؑ کے نانا تجھے سلام سلام


سبھی یتیموں کے وارث درود ہوں تم پر

سبھی غریبوں کے مولا تجھے سلام سلام


اندھیر نگری تھی دنیا تمام ورنہ تو

ہوا ہے تم سے اجالا تجھے سلام سلام


فرحت عباس شاہ


**********************


بے قراری بھی ہے مرے مولاؐ

سوگواری بھی ہے مرے مولاؐ


راستے میں رکاوٹیں بھی ہیں

قلب جاری بھی ہے مرے مولاؐ


آپؐ سے عشق پر غرور بھی ہے

انکساری بھی ہے مرے مولاؐ


پیار میں ہے دوانہ پن بھی مگر

بردباری بھی ہے مرےمولاؐ


درد ہے راستے کا پتھر بھی

اور سواری بھی ہے مرے مولاؐ


ہے مری ذات خاک پا تیری

غم کی ماری بھی ہے مرے مولاؐ


خوف تو احترام کا ہے مگر

دل پہ طاری بھی ہے مرے مولاؐ


ایک میں ہی نہیں گدا تیرا

دنیا ساری بھی ہے مرے مولاؐ


جیت لی ہیں عنایتیں لیکن

جان ہاری بھی ہے مرے مولاؐ


فرحت عباس شاہ


**********************


غلامی کا قرینہ آگیا ہے

مرے دل میں مدینہ آ گیا ہے


مری ہر شب کرے ذکرِ محمدؐ

مرے گھر میں شبینہ آگیا ہے


مری تسبیح کے ہاتھوں میں مولا

خزینہ ہی خزینہ آگیا ہے


محمدؐ مصطفیٰؐ کی برکتوں سے

مرے جیسوں کو جینا آگیا ہے


زباں پر نام آتے ہی نبی کا

مصیبت کو پسینہ آ گیا ہے


میں طایف دیکھ کر آیا ہوں فرحت

مجھے زخموں کو سینا آگیا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ادھر پورا زمانہ یا رسول اللہؐ

ادھر تیرا گھرانہ یا رسول اللہؐ


بڑے تو تھے ہی سب تیروں کی زد میں

تھے بچے بھی نشانہ یارسول اللہؐ


فرحت عباس شاہ


**********************


جیسے ہی پاس آیا مہینہ رسولؐ کا

آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ رسولؐ کا


ہے گرد میرے آقاؐ کی خاکِ شفائے پاک

چشمہ ہے خوشبوؤں کا پسینہ رسولؐ کا


پڑھتا ہوں میں درود و سلام اب رُکے بنا

آیا ہے ہاتھ میرے خزینہ رسولؐ کا


قربانی دی تو اپنے ہی لال و گُہر کی دی

دیکھا ہے دنیا والو قرینہ رسولؐ کا


تھی غرق کائنات سمندر کے بیچ میں

آتا نہ گر مدد کو سفینہ رسول ؐ کا


فرحت عباس شاہ


**********************


اے دلِ مضطرب یہ کام سنبھال

میرے آقاؐ کا احترام سنبھال


اس میں کُنجی ہے دو جہانوں کی

گر لیا تو نے ان کا نام سنبھال


خدمتِ اقدسِ حضورؐ میں رکھ

اے فرشتے مرا سلام سنبھال


بیٹھ جا، جا کے پاؤں میں ان کے

اور دنیا کا انتظام سنبھال


میرےآقاؐ کی راہ اپنا لے

ابتداء اور اختتام سنبھال


فرحت عباس شاہ


**********************


جس نے اللہ کے محبوبؐ سے غفلت کر لی

اس نے تو اپنی عبادت بھی مشقت کر لی


آگئی سامنے تصویر جو طیبہ کی کبھی

میری آنکھوں نے اسی لمحے عبادت کر لی


رات دن سینے میں محفوط کیا پڑھ کے درود

قبر میں اپنے لئے میں نے سہولت کر لی


اپنی بخشش کا نکالا یہ طریقہ میں نے

آپؐ کے چاہنے والوں سے محبت کر لی


لوگ کہتے ہیں کہ شاعر ہے رسولؐ اللہ کا

دیکھ لیں میں نے بھی کس شان کی شہرت کر لی


فرحت عباس شاہ


**********************


یہ بات تو شاہوں کی سمجھ میں بھی ہے آئی

افضل ہے زمانے سے محمد ؐ کی گدائی


فرحت عباس شاہ


**********************


جس دن سے بسے روح میں سرکارِؐ دوعالم

حصے میں مرے آئے ہیں انوارِؐ دو عالم


ہر بات میں افضل کیا تخلیق انہیں اور

اللہ نے رتبہ دیا سردارِؐ دو عالم


دنیا میں کوئی چیز بھی ہمسر نہیں ان کی

شہکارِؐ دو عالم، ہیں وہ شہکارِؐ دو عالم


اٹھی ہے گھٹا رحمتِ باری کی عرب سے

خوش ہو کے چمک اٹھے ہیں اشجارِ دو عالم


انسان کی توقیر بڑھائی یہاں آ کر

ارفع کیا سرکارؐ نے معیارِ دو عالم


فرحت عباس شاہ


**********************


اس لیے اتنا ہے غرور مجھے

عشق ہے آپؐ سے حضورؐ مجھے


آپؐ کا ذکر کرتا رہتا ہوں

گھیرے رکھتا ہے ایک نور مجھے


آپؐ کی راہ سے مرے آقا

کر نہیں سکتا کوئی دور مجھے


آپؐ کا خواب دیکھنے کا خیال

کر گیا پَل میں چُور چُور مجھے


میں کہوں گا مجھے حضورؐ ملا

جب بلائے گا کوہِ طور مجھے


جپتا رہتا ہوں آپؐ کی مالا

قید رکھتا ہے اک سرور مجھے


فرحت عباس شاہ


**********************


جب نگاہوں میں مدینہ آیا

زندگانی کا قرینہ آیا


اُسؐ نے تقوے کو فضیلت دی تو

میرے جیسوں کو بھی جینا آیا


دیکھ کر اُنؐ پہ بھروسہ میرا

بد نصیبی کو پسینہ آیا


جس نے در چھوڑ دیا آقاؐ کا

چین اس کو تو کہیں نا آیا


آپ نے صبر سکھایا تو پھر

اپنے ہر زخم کو سینا آیا


فرحت عباس شاہ


**********************


اس کا مطلب ہے رائیگاں جاؤں؟

میں ترے دَر بنا کہاں جاؤں؟


فرحت عباس شاہ


**********************


شام کو یا سحر سلام سلام

یانبیؐ آپؐ پر سلام سلام


دھوپ تسبیح کرتی رہتی ہے

بھیجتے ہیں شجر سلام سلام


ایک پل میں ہزار بار کہیں

سارے شمس و قمر سلام سلام


اے دکھوں سے بچانے والے مجھے

اے مرے مرے چارہ گر سلام سلام


آپؐ کے پاؤں ہوں مرے آقاؐ

ان پہ ہو میرا سر سلام سلام


فرحت عباس شاہ


**********************


رات دن اور صبح شام سلام

یانبیؐ یا نبیؐ سلام سلام


ہے عجب شاندار ذات تری

خوبصورت تمہارا نام سلام


ترے اک حرف مختصر پر میں

وار دوں اپنا سب کلام سلام


کائناتوں کا اشتیاق درود

سب جہانوں کا اہتمام سلام


کوئی جا کر مدینہ بتلائے

کہہ رہا ہے تراؐ غلام سلام


تجھ کو بھیجا حضورؐ پر میں نے

کتنا اعلیٰ ترا مقام سلام


میرے ہونٹوں پہ بس ہے ذکر تراؐ

میرے دل کا تو بس ہے کام سلام


فرحت عباس شاہ


**********************


آہیں قبول کر مرے آنسو قبول کر

آقاؐ مرے خیال کی خوشبو قبول کر


فرحت عباس شاہ


**********************


اب تعارف یہی ہمارا ہے

ہم مسافر ہیں تو ستارہ ہے


اپنی صف میں اگر کریں شامل

پیٹ پر سنگ بھی گوارہ ہے


یہ جو پُر اعتماد ہوں اتنا

آپؐ ہی کا مجھے سہارا ہے


آپؐ نے اب تلک بلایا نہیں

زندگی کیا ہے بس گزارا ہے


جب بھی آئی کوئی پریشانی

دل نے بس آپ کو پکارا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


رکھا جو نام محمدؐ تو نام بھی اعلیٰ

خدا نے آپؐ کو بخشا مقام بھی اعلیٰ


بس اس لیے ہی کہ بھیجا ہے آپؐ پر آقا

قرار پایا ہے میرا سلام بھی اعلیٰ


خدا نے اور بھی نبیوں سے بات کی لیکن

کیا جو آپ سے لیکن کلام بھی اعلیٰ


کہ میں نے نعت لکھی تیری مصطفیٰؐ میرے

بس اک یہی تو ہوا مجھ سے کام بھی اعلیٰ


زمیں پہ آئے تو دنیا کو حیثیت بخشی

کیا جو عرش پہ تو نے قیام بھی اعلیٰ


لکھی جو نعت تو شاعر ہوا کمال کا میں

تری غلامی میں آ کر غلام بھی اعلیٰ


فرحت عباس شاہ


**********************


رکھوں گا نعتیں اپنی علیحدہ سنبھال کر

لایا سمندروں سے ہوں موتی نکال کر


فرحت عباس شاہ


**********************


مرا اور آپؐ کا رشتہ حضورؐ ایسا تھا

میں یاد بھی نہ کبھی آیا دور ایسا تھا


گناہ گار ہوں لیکن بتا کہاں جاؤں

کبھی معافی نہ ہو کیا قصور ایسا تھا


جو کہہ دیا کہ کلامِ خدا ہے شعر نہیں

کوئی معاملہ اس میں ضرور ایسا تھا


کسی نشے کی ضرورت رہی نہ پھر باقی

تمہارے ذکر میں آقاؐ سرور ایسا تھا


کسی بھی شاہ کو خاطر میں لانے والے نہ تھے

ترے غلام ہیں اس پر غرور ایسا تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


ابھی تو صرف بلاوے کا استخارہ ہوا

مگر یہ دل اسی لمحے میں پارہ پارہ ہوا


مجھے کسی نے کہا نعت اچھی کہتے ہو

تمام عمر کا پورا ہر اک خسارہ ہوا


ضرور میری محبت میں تھی کمی کوئی

میں ان کے ہوتے ہوئے بھی جو بے سہارا ہوا


میں ان سے دور تھا اور ذرہ بھی نہیں تھا میں

میں ان کے در پہ گیا اور اک ستارہ ہوا


مجھے کسی بھی تشّنعی سے کچھ نہ یارا ہوا

میں اس قدر ہوں تری چاہتوں کا مارا ہوا


حضور آپ سے دوری پہ صبر مشکل ہے

نہ پوچھیں کس طرح اب تک مرا گزارا ہوا


چراغ سا کوئی جلنے لگا مرے اندر

دل و نگاہ میں روشن زمانہ سارا ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


مجتبیٰ کہوں یا تجھے مصطفیٰ کہوں

ہے ایک بات چاہے میں صلِّ علیٰ کہوں


لفظوں کو حیثیت ملی، عزت، شرف ملا

بلغ العُلےٰ کہوں یا کشف الدُّجا کہوں


فرحت عباس شاہ


**********************


بھنور میں تھا کنارا مل گیا ہے

مجھے انؐ کا سہارا مل گیا ہے


نظر آتا ہے گنبد ہر جگہ سے

ریاضت کو اشارہ مل گیا ہے


غلامی ہو گئی ہے بخت میرا

مقدر کا ستارا مل گیا ہے


مرے آقاؐ کی چاہت کا خزانہ

مجھے سارے کا سارا مل گیا ہے


ہے ڈر دنیا کا اور نا عاقبت کا

ہمیں رستہ ہمارا مل گیا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


اے رحمت کُل میری طرف بھی تو نظر ہو

مجھ رات کے مارے کے نگر میں بھی سحر ہو


میں آنسو بہاتا رہوں چلتا رہوں آقا

یوں راہ مدینہ میں مری رات بسر ہو


بندھ جائے اگر سانس کی ڈوری سے ترا ذکر

ممکن ہی نہیں ہے کسی بیماری کا ڈر ہو


میں آنکھ نہ کھولوں کہ کہیں خواب نہ ٹوٹے

میں سر نہ اٹھاؤں کہ بھلے آپ کا در ہو


ہر شاخ پہ اک پھول کھلے اسم محمدؐ

دل میرا ترے عشق میں خوشبو کا شجر ہو


فرحت عباس شاہ


**********************


بھیج دوں حیف بس اس زمانے پہ میں

بیٹھ جاؤں فقط آستانے پہ میں


مجھ سے لاچار پر کچھ کرمؐ کیجئیے

آ گیا ہوں دکھوں کے نشانے پہ میں


مجھ کو اِسم محمدؐ خزینہ ملے

اور لگ جاؤں دولت کمانے پہ میں


آپ میرے لیے راستے کھول دیں

خرچ ہو جاؤں بس آنے جانے پہ میں


اپنی کمزوریوں کا بہانہ کروں

اور کڑھتا رہوں پھر بہانے پہ میں


فرحت عباس شاہ


**********************


ملی ہے ہم کو خوشی کی خبر مبارک ہو

چلے ہیں آپ مدینے، سفر مبارک ہو


ذرا سنیں تو بھلا کہہ رہے ہیں سب مل کر

پہاڑ، دریا، سمندر، شجر مبارک ہو


فرحت عباس شاہ


**********************


خوش نصیبی کہ اتنا پیار ملا

ہے بلاوے کا انتظار ملا


ایک میں ہوں کہ ہو خطا سر زد

وہ کرم ہے کہ بار بار ملا


اُس وسیلے کو پہلے کیوں نہ رکھوں

جس وسیلے سے کردگار ملا


جیسی آفات ہوں، میسر ہے

سائباں کتنا پائیدار ملا


دل سنبھلنے میں پل نہیں لگتا

مجھ کو یہ کیسا غمگسار ملا


جتنا اترائیں ہم بہت کم ہے

دو جہانوں کا تاجدار ملا


فرحت عباس شاہ


**********************


اک نام محمدؐ میں ہے افلاک کی دولت

اللہ نے دے دی ہمیں لولاک کی دولت


احساس بھی بخشا مجھے معیار کا ان کے

اور ساتھ ہی دے دی مجھے ادراک کی دولت


گر اِزن ملے چنتا پھروں گلیوں سے ان کی

مجھ کو تو نہیں کم خس و خاشاک کی دولت


سب دنیا کو ٹھکرایا محمدؐ کے مقبال

دیکھی ہے زمانے! دل بیباک کی دولت


بے چینی، تڑپ، درد، دعا، دشت نوردی

یہ کم تو نہیں ہے دل صد چاک کی دولت


فرحت عباس شاہ


**********************


جس روز سے مدینے کی راہوں میں آ گیا

بس میں مرے خدا کی نگاہوں میں آ گیا


دربارِ شاہِ بطحہٰ کے رتبے عجیب ہیں

ان کی غلامی پائی تو شاہوں میں آگیا


بس اک درودِ پاک سے بے چینیاں گئیں

میں جس طرح سکون کی بانہوں میں آگیا


محفوظ ہو گیا سبھی آفات سے، جو شخص

سرکارؐ دو جہاں کی پناہوں میں آگیا


واللہ میں ایک نعت کے صدقے سے اس طرح

لمحوں میں دنیا بھر کی نگاہوں میں آگیا


فرحت عباس شاہ


**********************


زندگی، دریا ، کنارا یانبیؐ

بے سہاروں کا سہارا یانبیؐ


آپ نے دامن میں اس کو لے لیا

جس کسی نے بھی پکارا یانبیؐ


غمزدوں کو دینے والے آسرا

میں بہت ہوں غم کا مارا یا نبیؐ


کب سمیٹیں گے مجھے صلِّ علیٰ

ہو چکا ہوں پارہ پارہ یا نبیؐ


اے جمال و حسنِ سیرت کی مثال

رحمتوں کا استعارہ یا نبیؐ


اپنی امت سے بچا لیجئے مجھے

سخت مشکل ہے گزارا یانبیؐ


فرحت عباس شاہ


**********************


ایمان ہے میرا مری توقیر تمہیؐ سے

گر میری سنورنی ہے تو تقدیر تمہیؐ سے


انسان کو انسان بنا دینے پہ قادر

کس ذات کی ظلمت میں ہے تنویر تمہیؐ سے


ورنہ مجھے معلوم نہیں آگے کا منظر

آنکھوں میں جو جنت کی ہے تصویر تمہیؐ سے


میں شاعرِ غم تیریؐ عطا سے ہی ہوا ہوں

ہے میرے خیالات کی جاگیر تمہیؐ سے


ہوتا ہے اثر پڑھ کے جو لوگوں کے دلوں پر

آتی ہے مرے لفظوں میں تاثیر تمہیؐ سے


فرحت عباس شاہ


**********************


رحمت ہوئی حاصل، ہوئیں برکات میسر

جب احمدؐ مرسل کی ہوئی ذات میسر


دن رشک سے بس دیکھتے رہ جاتے ہیں اس کو

اس رتبے کی آتی ہے ہمیں رات میسر


جس شہر کو کہتے ہیں مدینہ مرے یارو

اس شہر کو ہے نور کی برسات میسر


دل میرا سنور سج کے جو نکلا شب معراج

دولہا کو رہی تاروں کی بارات میسر


ممکن ہے کہیں کوچہ و بن میں کبھی مولا

ہو جائے دوانے کو ملاقات میسر


جس پرمرے آنسو نہ تھمیں درد سوا ہو

ہو جائے اگر ایسی کوئی نعت میسر


فرحت عباس شاہ


**********************


ایک سے ایک کاروبار میں گم

ساری امت ہے انتشار میں گم


آپؐ ہی اب تو راہ دکھلائیں

ورنہ ہم تو ہیں بس غبار میں گم


آنکھ محصور ہے اداسی میں

دل ہوا درد کے دیار میں گم


آپ ہی در گزر کا چشمہ ہیں

ہم فقط حرص کے حصار میں گم


منزلیں بھول کر ہوئے ہم تو

ایک سے ایک رھگزار میں گم


فرحت عباس شاہ


**********************


آپؐ ہیں مالکِ کتابِ خدا

آپؐ عنوانِ انتسابِ خدا


جتنے بھی ہیں سوال گم سم ہیں

بولتا ہے فقط جوابِ خدا


اب بھی گر ہم سمجھ نہیں پائے

ایک دن ہو گا احتسابِ خدا


زد میں آئے ہیں اب مسلماں خود

جاری ساری ہوا عذابِ خدا


اب کہیں جا کے یاد آیا ہے

بند ہی ہو گیا تھا بابِ خدا


فرحت عباس شاہ


**********************


ہے جو دنیا کا بیاباں مرے مکی مدنیؐ

تیرے دم سے ہے فروزاں مرے مکی مدنیؐ


اک کہانی کی طرح لگتی ہے تخلیق جہاں

آپؐ کا نام ہے عنواں مرے مکی مدنیؐ


آپؐ ہی ہیں یہاں دروازہ ء احساسِ نجات

آپؐ ہی رُشد کا امکاں مرے مکی مدنیؐ


آپؐ بن کوئی بھی درباز نہیں ملتا ہمیں

زریعہ توبہء عصیاں مرے مکی مدنیؐ


اے کہ اعزاز تب و تاب و غرورِ افلاک

باعثِ عظمتِ انساں مرے مکی مدنیؐ


اے مرے جیسے پریشانوں کے وارث مولا

اے پنہ گاہِ غریباں مرے مکی مدنیؐ


فرحت عباس شاہ


**********************


جس قدر زاویے گمان کے ہیں

میرے آقا کے خاکدان کے ہیں


انؐ کے نعلین کے تلے فرحت

کتنے ہی شہر آسمان کے ہیں


دھوپ میں بھی ہمیں ملے ٹھنڈک

معجزے تیرے سائبان کے ہیں


سارے ختم الرسل کے صدقے ہیں

رنگ جتنے بھی اس جہان کے ہیں


ایک سے ایک مصطفیٰؐ ہیں یہ

فرد جتنے بھی خاندان کے ہیں


جتنے سورج ہیں کہکشاؤں میں

میرے آقاؐ کی آن بان کے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


دل یہ ازل ہے جو عذاب گھٹے

یا نبیؐ میرا اضطراب گھٹے


میں اسی جدو جہد میں ہوں مگن

دنیاداری ترا نصاب گھٹے


اک ذرا اپنی صاف رکھ نیت

عمر بھر ناترا ثواب گھٹے


بے نیازی مری بڑھا مولا

روز و شب کا مرا حساب گھٹے


مجھ کو اپنی امان میں لے لے

اس سے پہلے کہ آب و تاب گھٹے


فرحت عباس شاہ


**********************


وہ اگر دل میں سمانے لگ جائیں

راستے صاف نظر آنے لگ جائیں


پھر عبادات کے میلے ہر سو

ایک سے ایک سہانے لگ جائیں


اور کیا چاہئیے ہے وقتِ نماز

ہم اگر اشک بہانے لگ جائیں


ان کی خواہش ہو تو اک لمحہ لگے

ورنہ منزل کو زمانے لگ جائیں


ان کی رحمت ہے کہ محفوظ ہیں ہم

ورنہ بے گور ٹھکانے لگ جائیں


فرحت عباس شاہ


**********************


اللہ کے دوست، نبیوں کے سردار یانبیؐ

ہم پر کرم ہو آپؐ کا اک بار یا نبیؐ


ہم نے بھلایا اسوہء حسنہ، اور اس کے بعد

پڑنے لگی ہے ہم کو بہت مار یانبیؐ


اب جنگ حوصلے کی نہیں ایٹموں کی ہے

ہم نے سنبھال رکھی ہے تلوار یا نبیؐ


جیسے حضور ادنیٰ سپاہی تھے آپؐ کے

ویسے نہیں ہیں آج کے سالار یانبیؐ


صحرا ؤں میں لہو کے ہیں چشمے ابل پڑے

بھرنے لگے ہیں قبروں سے کہسار یا نبیؐ


بوڑھے بھی، ان میں بچے بھی ہیں عورتیں بھی ہیں

لگنے لگے ہیں لاشوں کے انبار یا نبیؐ


لگتا نہیں کہ یہ ہیں وہی دجلہ و فرات

اجڑے ہیں جس طرح در و دیوار یانبیؐ


کوتاہیاں گھسیٹ کے لائی ہیں اس جگہ

ہم ہو چکے ہیں درد سے دو چار یا نبیؐ


شرمندگی سے کھلتے نہیں لب حبیبِ پاکؐ

کس سے کریں شکست کا اظہار یانبی


ممکن ہے اب بھی دُور قیامت ہو پر یہاں

آنے لگے نظر ہمیں آثار یا نبیؐ


اس کو جہاں میں کچھ نہیں دوزخ سوا ملا

جس نے کیا ہے آپ کا انکار یانبیؐ


امت پہ کچھ کرم کی نظر کیجیئے حضور

گرچہ بہت ہی ہم ہیں گنہگار یا نبیؐ


بخشش کا آپ دریا ہیں اس اعتماد پر

کرتے ہیں ہم خطاؤں کا اقرار یا نبیؐ


مشکل کشاء علی سا کوئی بھیجئیے حضور

گھیرے میں لے چکے ہمیں کفار یا نبیؐ


پھولوں کو کھا گیا ہے یہ بارود کا دھواں

روتے ہیں چیخ چیخ کے اشجار یانبیؐ


فرحت عباس شاہ


**********************

اختتام

**********************

تاجدارِ حرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم

**********************

فرحت عباس شاہ

**********************