Pages

Friday 10 October 2014

Noon Meem Rashid Poetry



















جرأتِ پرواز

بجھ گئی شمع ضیا پوشِ جوانی میری!

آج تک کی ہے کئی بار "محبت" میں نے
اشکوں اور آہوں سے لبریز ہیں رومان مرے
ہو گئی ختم کہانی میری!
مٹ گئے میری تمناؤں کے پروانے بھی
خوفِ ناکامی و رسوائی سے
حسن کے شیوۂ خود رائی سے
دلِ بے چارہ کی مجبوری و تنہائی سے!
میرے سینے ہی میں پیچاں رہیں آہیں میری
کر سکیں روح کو عریاں نہ نگاہیں میری!

ایک بار اور محبت کر لوں

سعیِ ناکام سہی
اور اک زہر بھرا جام سہی
میرا یا میری تمناؤں کا انجام سہی
ایک سودا ہی سہی، آرزوئے خام سہی
ایک بار اور محبت کر لوں؟
ایک "انسان" سے الفت کر لوں؟
میرے ترکش میں ہے اک تیر ابھی
مجھ کو ہے جرأتِ تدبیر ابھی
بر سرِ جنگ ہے تقدیر ابھی
اور تقدیر پہ پھیلانے کو اک دام سہی؟
مجھ کو اک بار وہی "کوہ کنی" کرنے دو
اور وہی "کاہ بر آوردن" بھی___؟
یا تو جی اٹھوں گا اس جرأتِ پرواز سے میں
اور کر دے گی وفا زندۂ جاوید مجھے
خود بتا دے گی رہِ جادۂ امید مجھے
رفعتِ منزلِ ناہید مجھے
یا اُتر جاؤں گا میں یاس کے ویرانوں میں
اور تباہی کے نہاں خانوں میں
تاکہ ہو جائے مہیا آخر
آخری حدِ تنزل ہی کی ایک دید مجھے
جس جگہ تیرگیاں خواب میں ہیں
اور جہاں سوتے ہیں اہریمن بھی
تاکہ ہو جاؤں اسی طرح شناسا آخر
نور کی منزلِ آغاز سے میں
اپنی اس جرأتِ پرواز سے میں

--------------------------


نمرود کی خدائی

یہ قدسیوں کی زمیں

جہاں فلسفی نے دیکھا تھا، اپنے خوابِ سحر گہی میں،
ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشمۂ جانفروز کی آرزو کا پرتو!
یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے:
"وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا؟
___وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا؟"

اے فلسفہ گو،

کہاں وہ رویائے آسمانی!
کہاں یہ نمرود کی خدائی!
تو جال بنتا رہا ہے، جن کے شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے
ہم اُس یقیں سے، ہم اُس عمل سے، ہم اُس محبت سے،
آج مایوس ہو چکے ہیں!

کوئی یہ کس سے کہے کہ آخر

گواہ کس عدلِ بے بہا کے تھے عہدِ تاتار کے خرابے؟
عجم، وہ مرزِ طلسم و رنگ و خیال و نغمہ
عرب، وہ اقلیمِ شیر و شہد و شراب و خرما
فقط نوا سنج تھے در و بام کے زیاں کے،
جو اُن پہ گزری تھی
اُس سے بدتر دنوں کے ہم صید ناتواں ہیں!

کوئی یہ کس سے کہے:

در و بام،
آہن و چوب و سنگ و سیماں کے
حُسنِ پیوند کا فسوں تھے
بکھر گیا وہ فسوں تو کیا غم؟
اور ایسے پیوند سے امیدِ وفا کسے تھی!

شکستِ مینا و جام برحق،

شکستِ رنگ عذارِ محبوب بھی گوارا
مگر____یہاں تو کھنڈر دلوں کے،
(____یہ نوعِ انساں کی
کہکشاں سے بلند و برتر طلب کے اُجڑے ہوئے مدائن____)
شکستِ آہنگ حرف و معنی کے نوحہ گر ہیں!

---------------------------


تعارف

اجل، ان سے مل،

کہ یہ سادہ دل
نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب،
نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب،
نہ اہلِ کتاب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشین
نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمین
فقط بے یقین
اجل، ان سے مت کر حجاب
اجل، ان سے مل!

بڑھو تُم بھی آگے بڑھو،

اجل سے ملو،
بڑھو، نو تونگر گداؤ
نہ کشکولِ دیوزہ گردی چھپاؤ
تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو بندگانِ درم
اجل، یہ سب انسان منفی ہیں،
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو اِن پر نگاہِ کرم!

(ن م راشد)


-------------------------



زندگی سے ڈرتے ھو

زندگی سے ڈرتے ھو

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ، ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻮ ﮨﻢ
ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ!
ﺁﺩﻣﯽ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮨﻮ؟
ﺁﺩﻣﯽ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ، ﺁﺩﻣﯽ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ!
ﺁﺩﻣﯽ ﺯﺑﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﺁﺩﻣﯽ ﺑﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ
ﮨﮯ،
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺭﺗﮯ!
ﺣﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﻨﯽ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﺎﺋﮯ ﺁﮨﻦ
ﺳﮯ، ﺁﺩﻣﯽ ﮬﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ
ﺁﺩﻣﯽ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﮯ
ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺭﺗﮯ!
“ﺍﻥ ﮐﮩﯽ” ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮨﻮ
ﺟﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ، ﺍﺱ ﮔﮭﮍﯼ ﺳﮯ
ﮈﺭﺗﮯ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﯽ ﺁﮔﮩﯽ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ
ﮨﻮ!
ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮔﺰﺭﮮ ﮨﯿﮟ،
ﺩﻭﺭ ﻧﺎﺭﺳﺎﺋﯽ ﮐﮯ، “ﺑﮯ ﺭﯾﺎ”
ﺧﺪﺍﺋﯽ ﮐﮯ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮ، ﮨﯿﭻ ﺁﺭﺯﻭ
ﻣﻨﺪﯼ
ﯾﮧ ﺷﺐ ﺯﺑﺎﮞ ﺑﻨﺪﯼ، ﮨﮯ ﺭﮦ ِﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ!
ﺗﻢ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ،
ﻟﺐ ﺍﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻠﺘﮯ، ﮨﺎﺗﮫ ﺟﺎﮒ ﺍﭨﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﮨﺎﺗﮫ ﺟﺎﮒ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺭﺍﮦ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﮞ ﺑﻦ
ﮐﺮ
ﻧﻮﺭ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﮞ ﺑﻦ ﮐﺮ
ﮨﺎﺗﮫ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺻﺒﺢ ﮐﯽ ﺍﺫﺍﮞ
ﺑﻦ ﮐﺮ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮨﻮ؟
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ، ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺗﻮ ﮨﻢ
ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ،
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮨﻮ!
ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻓﺼﯿﻠﻮﮞ ﭘﺮ
ﺩﯾﻮ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺳﺎﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﭘﺎﮎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺁﺧﺮ
ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﻟﺒﺎﺩﮦ ﺑﮭﯽ
ﭼﺎﮎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺁﺧﺮ، ﺧﺎﮎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺁﺧﺮ
ﺍﮊﺩﮨﺎﻡ ِﺍﻧﺴﺎﮞ ﺳﮯ ﻓﺮﺩ ﮐﯽ ﻧﻮﺍ ﺁﺋﯽ
ﺫﺍﺕ ﮐﯽ ﺻﺪﺍ ﺁﺋﯽ
ﺭﺍﮦِ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ، ﺭﺍﮨﺮﻭ ﮐﺎ ﺧﻮﮞ
ﻟﭙﮑﮯ
ﺍﮎ ﻧﯿﺎ ﺟﻨﻮﮞ ﻟﭙﮑﮯ!
ﺁﺩﻣﯽ ﭼﮭﻠﮏ ﺍﭨّﮭﮯ
ﺁﺩﻣﯽ ﮨﻨﺴﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ، ﺷﮩﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﺴﮯ
ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺗﻢ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮨﻮ؟

---------------------------


اسرافیل کی موت

مرگ اسرافیل پر آنسو بہاؤ

وہ خداؤں کا مقرّب، وہ خداوند کلام
صوت انسانی کی روح جاوداں
آسمانوں کی ندائے بے کراں
آج ساکت مثل حرف ناتمام
مرگ اسرافیل پر آنسو بہاؤ!

آؤ، اسرافیل کے اس خواب بے ھنگام پر آنسو بہائیں

آرمیدہ ھے وہ یوں قرنا کے پاس
جیسے طوفاں نے کنارے پر اگل ڈالا اسے
ریگ ساحل پر، چمکتی دھوپ میں، چپ چاپ
اپنے صور کے پہلو میں وہ خوابیدہ ھے!
اس کی دستار، اس کے گیسو، اس کی ریش
کیسے خاک آلودہ ہیں!
تھے کبھی جن کی تہیں بود و نبود!
کیسے اس کا صور، اس کے لب سے دور،
اپنی چیخوں، اپنی فریادوں میں گم
جھلملا اٹھتے تھے جس سے دیر و زود!

مرگ اسرافیل پر آنسو بہاوء

وہ مجسّم ہمہمہ تھا، وہ مجسّم زمزمہ
وہ ازل سے تا ابد پھیلی ھوئی غیبی صداوءں کا نشاں!

مرگ اسرافیل سے

حلقہ در حلقہ فرشتے نوحہ گر،
ابن آدم زلف در خاک و نزاز
حضرت یزداں کی آنکھیں غم سے تار
آسمانوں کی صفیر آتی نہیں
عالم لاھوت سے کوئی نفیر آتی نہیں!

مرگ اسرافیل سے

اس جہاں پر بند آوازوں کا رزق
مطربوں کا رزق، اور سازوں کا رزق
اب مغنّی کس طرح گائے گا اور گائے کا کیا
سننے والوں کے دلوں کے تار چب!
اب کوئی رقاص کیا تھرکے گا، لہرائے گا کیا
بزم کے فرش و در و دیوار چپ!
اب خطیب شہر فرمائے گا کیا
مسجدوں کے آستان و گنبد و مینار چپ!
فکر کا صیّاد اپنا دام پھیلائے گا کیا
طائران منزل و کہسار چپ!

مرگ اسرافیل ھے

گوش شنوا کی، لب گویا کی موت
چشم بینا کی، دل دانا کی موت
تھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ھاؤ ھو
۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل دل کی اہل دل سے گفتگو
اہل دل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلو!
اب تنانا ھو بھی غائب اور یارب ھا بھی گم
اب گلی کوچوں کی ہر آوا بھی گم!
یہ ہمارا آخری ملجا بھی گم!

مرگ اسرافیل سے،

اس جہاں کا وقت جیسے سو گیا، پتھرا گیا
جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا،
ایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیں
ایسا سنّاٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں!

مرگ اسرافیل سے

دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی
زباں بندی کے خواب!
جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ھو
اس خداوندی کے خواب!

--------------------------------


دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل

یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ
راہ گم کر دوں کی مشعل، ان کے لب پر’ آؤ، آؤ!‘
تیرے ماضی کے خزف ریزوں سے جاگی ہے یہ آگ
آگ کی قرمز زباں پر انبساطِ نو کے راگ
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،
سرگرانی کی شب رفتہ سے جاگ!
اور کچھ زینہ بہ زینہ شعلوں کے مینار پر چڑھتے ہوے
اور کچھ تہہ میں الاؤ کی ابھی
مضطرب، لیکن مذبذبِ طفل کمسن کی طرح!
آگ زینہ، آگ رنگوں کا خزینہ
آگ اُن لذّات کا سرچشمہ ہے
جس سے لیتا ہے غذا عشاق کے دل کا تپاک
چوبِ خشک، انگور اس کی مے ہے آگ
سرسراتی ہے رگوں میں عید کے دن کی طرح!
آگ کا ہن، یاد سے اُتری ہوئی صدیوں کی یہ افسانہ خواں
آنے والے قرنہا کی داستانیں لب پہ ہیں
دل، مرا صحرا نوردِ پیر دل سن کر جواں!
آگ آزادی کا، دلشادی کا نام
آگ پیدائش کا، افزائش کا نام
آگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سنبل، شقیق و نسترن
آگ آرائش کا، زیبائش کا نام
آگ وہ تقدیس، دھُل جاتے ہیں جس سے سب گناہ
آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اِک ایسا کرم
عمر کا اِک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
اس لق و دق میں نکل آئیں کہیں بھیڑیے
اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!
(ریگِ صحرا کو بشارت ہو کہ زندہ ہے الاؤ،
بھیڑیوں کی چاپ تک نہیں ہیں!)
آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
آگ سے صحرا کے ٹیڑھے، رینگنے والے
گرہ آلود، ژولیدہ درخت
جاگتے ہیں نغمہ درجاں، رقص برپا، خندہ برلب
اور منا لیتے ہیں تنہائی میں جشن ماہتاب
ان کی شاخیں غیر مرئی طبل کی آواز پر دیتی ہیں تال
بیخ و بن سے آنے لگتی ہے خداوندی جلاجل کی صدا!
آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
رہروؤں، صحرانوردوں کے لیے ہے رہنما
کاروانوں کا سہارا بھی ہے آگ
اور صحراؤں کی تنہائی کو کم کرتی ہے آگ!
آگ کے چاروں طرف پشمینہ و دستار میں لپٹے ہوئے
افسانہ گو
جیسے گرد چشمِ مژگاں کا ہجوم
ان کے حیرتناک، دلکش تجربوں سے
جب دمک اُٹھتی ہے ریت
ذرّہ ذرّہ بجنے لگتا ہے مثالِ سازجاں
گوش برآواز رہتے ہیں درخت
اور ہنس دیتے ہیں اپنی عارفانہ بے نیازی سے کیھس!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ریگ اپنی خلوتِ بے نور و خودبیں میں رہے
اپنی یکتائی کی ت حسیں میں رہے
اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
ریگ کے دلشاد شہری، ریگ تو
اور ریگ ہی تیری طلب
ریگ کی نکہت ترے پیکر میں، تیری جاں میں ہے!
ریگ صبحِ عید کے مانند زرتاب و جلیل،
ریگ صدیوں کا جمال،
جشنِ آدم پر بچھڑ کر ملنے والوں کا وصال
شوق کے لمحات آزاد و عظیم!
ریگ نغمہ زن
کہ ذرّے ریگ زاروں کی وہ پازیبِ قدیم
جس پہ پڑ سکتا نہیں دستِ لئیم،
ریگ صحرا زرگری کی ریگ کی لہروں سے دُور
چشمۂ مکر و ریا شہروں سے دُور!
ریگ شب بیدار، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ
ریگ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانندِ نقیب
دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ
ریگ ہر عیّار، غارت گر کی موت
ریگ استبداد کے طغیاں کے شور و شر کی موت
ریگ جب اُٹھتی ہے، اُڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
ریگ کے نیزوں سے زخمی، سب شہنشاہوں کے خواب
(ریگ، اے صحرا کی ریگ
مجھ کو اپنے جاگتے ذرّوں کے خوابوں کی
نئی تعبیر دے!)
ریگ کے ذرّو، اُبھرتی صبحِ نو،
آؤ صحرا کی حدوں تک آ گیا روزِ طرب
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
آ چوم ریگ
ہے خیالوں کے پری زادوں سے بھی معصوم ریگ!
ریگ رقصاں، ماہ و سالِ نور تک رقصاں رہے
اس کا ابریشم ملائم، نرم خو خنداں رہے!

(ن م راشد)



0 comments:

Post a Comment